Ghazal
جس طرح دھوپ کا رنگت پہ اثر پڑتا ہے
نفس کا ویسے عبادت پہ اثر پڑتا ہے
ایسے مجھ پر بھی ترے غم کے نشاں دکھتے ہیں
جیسے موسم کا عمارت پہ اثر پڑتا ہے
صرف ماحول سے فکریں نہیں بدلا کرتیں
دوستوں کا بھی طبیعت پہ اثر پڑتا ہے
دشمنوں سے ہی نہیں ہوتا ہے خطرہ لاحق
باغیوں سے بھی حکومت پہ اثر پڑتا ہے
اب سمجھ آیا سبب مجھ کو مری پستی کا
مانگ گھٹتی ہے تو قیمت پہ اثر پڑتا ہے
بھوک نیکی کی لگے یا کہ لگے دنیا کی
بھوک لگتی ہے تو صورت پہ اثر پڑتا ہے
رزق رکتا ہے نمازوں کے قضا کرنے سے
نیتیں بد ہوں تو برکت پہ اثر پڑتا ہے
صاف دکھتی ہے بڑھاپے میں قضا سچ تو ہے
عمر کے ساتھ بصیرت پہ اثر پڑتا ہے
پاس رہنے سے ہی بڑھتی نہیں چاہت محسنؔ
فاصلوں سے بھی محبت پہ اثر پڑتا ہے